تحریر:زبیر عارفی
جب ہم تعلیم کے میدان میں بلوچستان کا دوسرے صوبوں سے تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ جان کر انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ، بلوچستان تعلیم، صحت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم اور سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔مملکت خداداد پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں تعلیمی خواندگی کی شرح انتہائی کم ہے۔ بلوچستان کا تعلیمی معیار پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ خراب ہے۔دور دراز علاقوں میں تو تعلیمی اداروں کی عمارتیں جانوروں کی پرورش کیلئے استعمال ہوتی رہی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے بلوچستان کی عوام کو تعلیم اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیوں رکھا گیا تو اس کا جواب یہ ہی ہے کہ بلوچستان کی عوام میں شرح خواندگی نہ ہونے کی بنا پر اپنے بنیادی حقوق کے لیے شعور اجاگر نہ ہو سکا۔جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پاسماندگی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہے اور ہیں۔پاکستان میں تعلیم سمیت بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے لیے مختلف سماجی ادارے مصروف عمل ہیں ان ہی میں سے ایک تعلیم فاؤنڈیشن ہے۔تعلیم فاؤنڈیشن کا قیام1989 میں پنجاب کے ایک سینئر بیوروکریٹ ڈاکٹر ظفر اقبال قادر نے بلوچستان میں عمل میں لایا۔بلوچستان کے ہونہاروں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے ظفر اقبال بلوچستان کی عوام کے لیے مسیحا بن کر آئے۔
پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ(پی پی ایل)تعلیم فاؤنڈیشن کا اب تک سب سے بڑا CSRپارٹنر ہے۔پی پی ایل ویلفیئر ٹرسٹ نے سوئی بلوچستان میں تعلیم فاؤنڈیشن کے تعلیمی پروجیکٹس میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ناقابل فراموش ہے، تعلیم فاؤنڈیشن نے پی پی ایل کے تعاون سے سوئی بلوچستان میں ورچوئل یونیورسٹی کا قیام بھی عمل میں لایا تا کہ سوئی بلوچستان کے بچے بھی تعلیم حاصل کر سکیں اور ایسی معیاری تعلیم حاصل کریں جو اسلام آباد کے عوام کے لیے ہے ویسی ہی سوئی بلوچستان کی عوام کے لیے ہو۔ورچوئل یونیورسٹی کے نجی کیمپس کی تعمیر کرنے کا بنیادی مقصد یہ تا کہ پسماندہ علاقے کے نوجوانوں کو جدید تعلیم کی فراہمی یقینی بنائے جا سکے۔اس کے علاوہ پی پی ایل نے سوئی گرامر سکول کی عمارت کی تعمیر۔اساتذہ کا ہاسٹل،عملے کی رہاش بھی تعمیر کیے جن پر سوئی کی عوام ان کی شکر گزار ہے۔ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت کے لیے تعلیم فاؤنڈیشن نے پی پی ایل کے تعاون سے سوئی میں ووکیشنل ٹریننگ انسٹیوٹ کا قیام بھی عمل میں لایا ہے جس سے سینکڑوں نوجوان ہنر مند بن کر اپنا مستقبل روشن کر چکے ہیں۔
پاکستان پٹرولیئم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے سماجی ذمہ داری پروگرام (سی ایس آر) کی تاریخ 1950 کی دہائی میں سوئی میں پی پی ایل کے تجارتی بنیادوں پر کاروبار کے آغاز سے جا ملتی ہے جب کمپنی نے کارکنوں اور مقامی آبادی کے لیے بچوں کا ایک اسکول تعمیر کیا تھا۔ اس وقت سے سی ایس آر پروگرام پی پی ایل کی کاروباری اقدار کا مرکزی جز رہا ہے۔
2001 میں کمپنی کے سی ایس آر پروگرام کو جغرافیائی وسعت اور موضوعاتی تنوع دینے کے لئے پی پی ایل ویلفیئر ٹرسٹ (پی پی ایل ڈبلیو ٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت پی پی ایل کا سماجی بھلائی پروگرام ملک بھر، بالخصوص جہاں کمپنی تیل وگیس کی تلاش و دریافت کا کام کرتی ہے کے اردگرد کے علاقوں، میں مقیم افراد کی تعلیم، صحت، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، پسماندہ آبادیوں کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنانیاور قدرتی آفات کے بعد بحالی کے اقدامات پر مبنی ہے۔ملک کے انتہائی دور دراز اور مشکل گذار علاقوں میں سماجی ترقی اور فلاح و بہبود کی خدمات فراہم کرنے والے اہم ترین اداروں میں سے ایک کی حیثیت سے پی پی ایل کو 2004سے 2014تک مسلسل 11 سال پاکستان سینٹر برائے فلینتھراپی کی جانب سے کارپوریٹ فلینتھراپی ایوارڈ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔
بلوچستان کے انتہائی پاسماندہ اضلاع کے غریب بچوں کو جدید تعلیم مہیا کرنے کے لیے تعلیم فاؤنڈیشن نے ہر سطح پر جدو جہد کی۔تعلیم فاؤنڈیشن کے سکول، کوہلو،زوہب، قلعہ سیف اللہ،مسلم باغ،لورالائی،پشین،مستونگ اورسوئی(ڈیرہ بگٹی) میں بچوں کو جدید تعلیم بذریعہ جدید ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں،خواتین کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے تعلیم فاؤنڈیشن نے سوئی ڈیرہ بگٹی میں ووکیشنل ٹرینگ انسٹیٹیوٹ کا قیام بھی عمل میں لایا ہے،جبکہ سوئی کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے بھی ہنر مندی کی تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔اس وقت تعلیم فاؤنڈیشن کے سکولوں سے فارغ ہو کر 12سو سے زائد بچے اعلی تعلیم ملکی اور غیر ملکی جامعات میں حاصل کر رہے ہیں ان میں ڈاکٹر،انجینئر،بزنس ایڈمنسٹریشن سمیت ہر شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے۔جبکہ اب تک تعلیم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلنے والے ووکیشنل ٹرینگ انسٹیٹیوٹ سے بھی سینکڑوں افرادہنر مند بن کر با عزت روزگار کر رہے ہیں۔
پی پی ایل نے سوئی کی خواتین کو معاشی طور پر با اختیار بنانے کے لیے ویمن ویلفیئر سنٹر کا قیام عمل میں لایا اور 09 سال (2006 سے 2015) تک اس سنٹر سے سینکڑوں خواتین معاشی طور پر خود مختار بنیں اور اب وہ اپنے گھرانوں کی کفالت کا ذریعہ ہیں۔ ابتدائی طور پر، اس سنٹر کو پی پی ایل کی مالی مدد سے فرنٹیئر کور نے چلایا اور اس کا انتظام کیا جبکہ بلڈنگ کا سامان، فرنیچر بھی پی پی ایل نے عطیہ کیاتا کہ مقامی خواتین خود انحصار اور بااختیار بن سکیں۔بعدازاں، ڈبلیوڈبلیو سی کو اپنی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے تعلیم فاؤنڈیشن (ٹی ایف) کے حوالے کیا گیا اور سوئی میں ٹی ایف کے احاطے میں ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (وی ٹی آئی) تعمیر کیا گیا جو کہ ایک عظیم منصوبہ ہے۔
اس ووکیشنل ٹریننگ سنٹر میں کھانا پکانے، بیکنگ، سلائی، کڑھائی، مصوری گرافک ڈیزائننگ اور کمپیوٹر کی تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں اور وی ٹی آئی طلباء کے لئے آڈیٹوریم بھی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم فاؤنڈیشن کے زیر انتظام، سوئی میں تعلیم فاؤنڈیشن گرامر اسکول (ٹی ایف جی ایس) 1994 میں ڈیرہ بگٹی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں مقامی طلباء خصوصا لڑکیوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے سرگرم عمل ہے۔ابتدا میں، TFGS سوئی گیس فیلڈ کے پاس ہی پی پی ایل کی جانب سے فراہم کردہ احاطے میں واقع تھا۔ بڑھتی ہوئی اندراج اور بنیادی ڈھانچے کی حدود کی وجہ سے، پی پی ایل نے اسکول کے لئے فرنشڈ اسکول عمارت مہیا کرنے کا فیصلہ کیا جو 2006 کے اوائل میں مکمل ہوئی۔مقامی پسماندہ اور غریب لوگوں کے بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے اپنے عزم کو پورا کرنے کے لئے پی پی ایل، تقریبا دو دہائیوں سے ٹی ایف جی ایس، سوئی کی مدد کر رہی ہے۔ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے علاوہ کے، پی پی ایل طلباء اور اساتذہ دونوں کے لئے آمدورفت مہیا کرتا ہے۔ TFGS اساتذہ بھی SFH میں مفت طبی علاج حاصل کرتے ہیں۔تعلیم فاؤنڈیشن، اپنے ہم جہتی کارپوریٹ پی پی ایل کے سماجی ذمہ داری پروگرام کے ذریعے صحتِ، تعلیم اور روزگار کی فراہمی کے ذریعے پسماندہ طبقے کا معیار ِ زندگی بلند کرنے کے لئے پرُعزم ہے۔ضروت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے نوجوانو ں کو ہنرمندی کی تربیت فراہم کرنے کے لیے مزید اقدامات اٹھائے جائیں۔
فنی تعلیم و تربیت کی سہولتوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ فنی تعلیم و تربیت یافتہ نوجوانوں کو لیبر مارکیٹ میں روزگار دیا جائے مرکزی اور صوبائی حکومتیں گلگت بلتستا ن اور آزاد کشمیر کی حکومتوں،پالیسی ساز اداروں سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فنی تعلیم و تربیت کی فراہمی کے لیے کم از کم قومی آمدنی کا 10فیصد خرچ کریں اور معیاری فنی تعلیم و تربیت کے ادارے قائم کر کے فنی ماہرین کو قومی و صوبائی سطح پر کوریا جاپان جرمنی کی طرح سالانہ مقابلہ منعقد کر کے ماہرین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔پاکستان کی معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹرینگ بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔